تمہاری منتظر یوں تو ہزاروں گھر بناتی ہوں
وہ رستہ بنتے جاتے ہیں کچھ اتنے در بناتی ہوں
جو سارا دن مرے خوابوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں
میں ان لمحوں کو سی کر رات کا بستر بناتی ہوں
ہمارے دور میں رقاصہ کے پاؤں نہیں ہوتے
ادھورے جسم لکھتی ہوں خمیدہ سر بناتی ہوں
سمندر اور ساحل پیاس کی زندہ علامت ہیں
انہیں میں تشنگی کی حد کو بھی چھو کر بناتی ہوں
میں جذبوں سے تخیل کو نرالی وسعتیں دے کر
کبھی دھرتی بچھاتی ہوں کبھی امبر بناتی ہوں
مرے جذبوں کو یہ لفظوں کی بندش مار دیتی ہے
کسی سے کیا کہوں کیا ذات کے اندر بناتی ہوں
غزل
تمہاری منتظر یوں تو ہزاروں گھر بناتی ہوں
ثروت زہرا