ہر ایک خواب سو گیا خیال جاگتے رہے
جواب پی لیے مگر سوال جاگتے رہے
ہماری پتلیوں پہ خواب اپنا بوجھ رکھ گئے
ہم ایک شب نہیں کہ ماہ و سال جاگتے رہے
گزار کے وہ ہجرتیں عجیب زخم دے گئیں
ملے بھی اس کے بعد پر ملال جاگتے رہے
بس ایک بار یاد نے تمہارا ساتھ چھو لیا
پھر اس کے بعد تو کئی جمال جاگتے رہے
کمال بے کلی سہی عجیب رت جگے کئے
ہمارے جسم نیند سے نڈھال جاگتے رہے
کوئی جواز ڈھونڈتے خیال ہی نہیں رہا
تمام عمر یونہی بے خیال جاگتے رہے
غزل
ہر ایک خواب سو گیا خیال جاگتے رہے
ثروت زہرا