EN हिंदी
ثروت زہرا شیاری | شیح شیری

ثروت زہرا شیر

14 شیر

خواب اور تمنا کا کیا حساب رکھنا ہے
خواہشیں ہیں صدیوں کی عمر تو ذرا سی ہے

ثروت زہرا




کوئی جواز ڈھونڈتے خیال ہی نہیں رہا
تمام عمر یونہی بے خیال جاگتے رہے

ثروت زہرا




مرے جذبوں کو یہ لفظوں کی بندش مار دیتی ہے
کسی سے کیا کہوں کیا ذات کے اندر بناتی ہوں

ثروت زہرا




تمہاری آس کی چادر سے منہ چھپائے ہوئے
پکارتی ہوئی رسوائیوں میں بیٹھی ہوں

ثروت زہرا




وقت بھی اب مرا مرہم نہیں ہونے پاتا
درد کیسا ہے جو مدھم نہیں ہونے پاتا

ثروت زہرا