آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری
مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری
سرفراز خالد
آنکھوں نے بنائی تھی کوئی خواب کی تصویر
تم بھول گئے ہو تو کسے دھیان رہے گا
سرفراز خالد
اب جسم کے اندر سے آواز نہیں آتی
اب جسم کے اندر وہ رہتا ہی نہیں ہوگا
سرفراز خالد
اب مجھ میں کوئی بات نئی ڈھونڈھنے والو
اب مجھ میں کوئی بات پرانی بھی نہیں ہے
سرفراز خالد
عجیب فرصت آوارگی ملی ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے زمانے کا ڈر نہیں ہے کوئی
سرفراز خالد
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
مجھ سے طے ہی نہیں ہوتی ہے مسافت میری
سرفراز خالد
بادہ و جام کے رہے ہی نہیں
ہم کسی کام کے رہے ہی نہیں
سرفراز خالد
بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں
اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے
سرفراز خالد
دیر تک جاگتے رہنے کا سبب یاد آیا
تم سے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ اب یاد آیا
سرفراز خالد