EN हिंदी
سرفراز خالد شیاری | شیح شیری

سرفراز خالد شیر

47 شیر

آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری
مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری

سرفراز خالد




ہوش جاتا رہا دنیا کی خبر ہی نہ رہی
جب کہ ہم بھول گئے خود کو وہ تب یاد آیا

سرفراز خالد




ابتدا اس نے ہی کی تھی مری رسوائی کی
وہ خدا ہے تو گنہ گار نہیں ہوں میں بھی

سرفراز خالد




اک تو نے ہی نہیں کی جنوں کی دکان بند
سودا کوئی ہمارے بھی سر میں نہیں رہا

سرفراز خالد




جو تم کہتے ہو مجھ سے پہلے تم آئے تھے محفل میں
تو پھر تم ہی بتاؤ آج کیا کیا ہونے والا ہے

سرفراز خالد




خواب میلے ہو گئے تھے ان کو دھونا چاہئے تھا
رات کی تنہائیوں میں خوب رونا چاہئے تھا

سرفراز خالد




کسی نے جاں ہی لٹا دی وفاؤں کی خاطر
تم ہی بتاؤ کہ قصہ یہ کس کتاب کا ہے

سرفراز خالد




لمبی ہے بہت آج کی شب جاگنے والو
اور یاد مجھے کوئی کہانی بھی نہیں ہے

سرفراز خالد




میں اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں بہت
کسی سفر کے حوالے یہ جسم و جاں کر کے

سرفراز خالد