اسی سے پوچھو اسے نیند کیوں نہیں آتی
یہ اس کا کام نہیں ہے تو میرا کام ہے کیا
سرفراز خالد
وہ بھی نہ آیا عمر گزشتہ کے مثل ہی
ہم بھی کھڑے رہے در و دیوار کی طرح
سرفراز خالد
وہ چہرہ مجھے صاف دکھائی نہیں دیتا
رہ جاتی ہیں سایوں میں الجھ کر مری آنکھیں
سرفراز خالد
وہ مضطرب تھا بہت مجھ کو درمیاں کر کے
سو پا لیا ہے اسے خود کو رائیگاں کر کے
سرفراز خالد
یہ کائنات بھی کیا قید خانہ ہے کوئی
یہ زندگی بھی کوئی طرز انتقام ہے کیا
سرفراز خالد
زیست کی یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں سب
ایک دن تو بھی مری باتوں سے اکتا جائے گا
سرفراز خالد
ہمارے کاندھے پہ اس بار صرف آنکھیں ہیں
ہمارے کاندھے پہ اس بار سر نہیں ہے کوئی
سرفراز خالد
آنکھوں نے بنائی تھی کوئی خواب کی تصویر
تم بھول گئے ہو تو کسے دھیان رہے گا
سرفراز خالد
اب جسم کے اندر سے آواز نہیں آتی
اب جسم کے اندر وہ رہتا ہی نہیں ہوگا
سرفراز خالد