اب مجھ میں کوئی بات نئی ڈھونڈھنے والو
اب مجھ میں کوئی بات پرانی بھی نہیں ہے
سرفراز خالد
عجیب فرصت آوارگی ملی ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے زمانے کا ڈر نہیں ہے کوئی
سرفراز خالد
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
مجھ سے طے ہی نہیں ہوتی ہے مسافت میری
سرفراز خالد
بادہ و جام کے رہے ہی نہیں
ہم کسی کام کے رہے ہی نہیں
سرفراز خالد
بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں
اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے
سرفراز خالد
دیر تک جاگتے رہنے کا سبب یاد آیا
تم سے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ اب یاد آیا
سرفراز خالد
دل جو ٹوٹا ہے تو پھر یاد نہیں ہے کوئی
اس خرابے میں اب آباد نہیں ہے کوئی
سرفراز خالد
ایک دن اس کی نگاہوں سے بھی گر جائیں گے
اس کے بخشے ہوئے لمحوں پہ بسر کرتے ہوئے
سرفراز خالد
ہم کسی اور وقت کے ہیں اسیر
صبح کے شام کے رہے ہی نہیں
سرفراز خالد