EN हिंदी
سرفراز خالد شیاری | شیح شیری

سرفراز خالد شیر

47 شیر

ایک دن اس کی نگاہوں سے بھی گر جائیں گے
اس کے بخشے ہوئے لمحوں پہ بسر کرتے ہوئے

سرفراز خالد




آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری
مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری

سرفراز خالد




دیر تک جاگتے رہنے کا سبب یاد آیا
تم سے بچھڑے تھے کسی موڑ پہ اب یاد آیا

سرفراز خالد




بات تو یہ ہے کہ وہ گھر سے نکلتا بھی نہیں
اور مجھ کو سر بازار لئے پھرتا ہے

سرفراز خالد




بادہ و جام کے رہے ہی نہیں
ہم کسی کام کے رہے ہی نہیں

سرفراز خالد




اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
مجھ سے طے ہی نہیں ہوتی ہے مسافت میری

سرفراز خالد




عجیب فرصت آوارگی ملی ہے مجھے
بچھڑ کے تجھ سے زمانے کا ڈر نہیں ہے کوئی

سرفراز خالد




اب مجھ میں کوئی بات نئی ڈھونڈھنے والو
اب مجھ میں کوئی بات پرانی بھی نہیں ہے

سرفراز خالد




اب جسم کے اندر سے آواز نہیں آتی
اب جسم کے اندر وہ رہتا ہی نہیں ہوگا

سرفراز خالد