EN हिंदी
سرفراز دانش شیاری | شیح شیری

سرفراز دانش شیر

7 شیر

چند لمحے کو تو خوابوں میں بھی آ کر جھانک لے
زندگی تجھ سے ملے کتنے زمانے ہو گئے

سرفراز دانش




غم کا سورج تو ڈوبتا ہی نہیں
دھوپ ہی دھوپ ہے کدھر جائیں

سرفراز دانش




ہم اپنے جلتے ہوئے گھر کو کیسے رو لیتے
ہمارے چاروں طرف ایک ہی نظارا تھا

سرفراز دانش




ہمارا شعر بھی لوح طلسم ہے شاید
ہر ایک رخ سے ہمیں بے نقاب کرتا ہے

سرفراز دانش




رات کی سرحد یقیناً آ گئی
جسم سے سایا جدا ہونے لگا

سرفراز دانش




شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی
آج پھر سچائی کی صورت چھپا لی جائے گی

سرفراز دانش




طلسم توڑ دیا اک شریر بچے نے
مرا وجود اداسی کا استعارا تھا

سرفراز دانش