EN हिंदी
شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی | شیح شیری
shahr bhar ke aainon par KHak Dali jaegi

غزل

شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی

سرفراز دانش

;

شہر بھر کے آئینوں پر خاک ڈالی جائے گی
آج پھر سچائی کی صورت چھپا لی جائے گی

اس کی آنکھوں میں لپکتی آگ ہے بے حد شدید
سوچتا ہوں یہ قیامت کیسے ٹالی جائے گی

مشتعل کر دے گا اس کو اک ذرا سا احتجاج
مجھ پہ کیا گزری ہے اس پر خاک ڈالی جائے گی

قید کا احساس بھی ہوگا نہ ہم کو دوستو
یوں ہمارے پاؤں میں زنجیر ڈالی جائے گی

اے محبت لفظ بن کر اتنی سنجیدہ نہ ہو
ایک دن تو بھی کتابوں سے نکالی جائے گی

شرم سے خورشید اپنا منہ چھپا لے گا کہیں
روز روشن میں بھی دانشؔ رات ڈھا لی جائے گی