سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا
نہ پھر ہوا تھی موافق نہ پھر کنارا تھا
ہم اپنے جلتے ہوئے گھر کو کیسے رو لیتے
ہمارے چاروں طرف ایک ہی نظارا تھا
یہ واقعہ جو سنیں گے تو لوگ ہنس دیں گے
ہمیں ہماری ہی پرچھائیوں نے مارا تھا
طلسم توڑ دیا اک شریر بچے نے
مرا وجود اداسی کا استعارا تھا
یہ حوصلہ تو گلوں کا تھا ہنس پڑے لیکن
انہیں کسی کا تبسم بھی کب گوارا تھا
غرور عقل میں ایمان بھی گنوا بیٹھے
یہ اک جزیرہ تو سب کے لیے کنارا تھا
اسے بھی آج کیا میں نے آندھیوں کے سپرد
بہت دنوں سے مرے پاس اک شرارہ تھا
ہم اس کو کیسے سناتے کہانیاں دانشؔ
کتاب دل کا ہر اک صفحہ پارہ پارہ تھا
غزل
سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا
سرفراز دانش