آرزوؤں کی رتیں بدلے زمانے ہو گئے
زندگی کے ساتھ سب رشتے پرانے ہو گئے
آبلہ پائی نے ایسی شوخیاں کیں ریت سے
وقت کے تپتے ہوئے صحرا سہانے ہو گئے
چند لمحے کو تو خوابوں میں بھی آ کر جھانک لے
زندگی تجھ سے ملے کتنے زمانے ہو گئے
رات دروازے پہ بیٹھی تھی سو بیٹھی ہی رہی
گھر ہمارے روشنی کے کارخانے ہو گئے
شوخیاں دانشؔ متانت کی طرف ہیں گامزن
ایسا لگتا ہے کہ اب ہم بھی پرانے ہو گئے
غزل
آرزوؤں کی رتیں بدلے زمانے ہو گئے
سرفراز دانش