لمحہ لمحہ تجربہ ہونے لگا
میں بھی اندر سے نیا ہونے لگا
شدت غم نے حدیں سب توڑ دیں
ضبط کا منظر ہوا ہونے لگا
پھر نئے ارمان شاخوں کو ملے
پتہ پتہ پھر ہرا ہونے لگا
غور سے ٹک آنکھ نے دیکھا ہی تھا
مجھ سے ہر منظر خفا ہونے لگا
رات کی سرحد یقیناً آ گئی
جسم سے سایا جدا ہونے لگا
میں ابھی تو آئینے سے دور ہوں
میرا باطن کیوں خفا ہونے لگا
دانشؔ اب تیروں کی زد میں آ گیا
زندگی سے سامنا ہونے لگا
غزل
لمحہ لمحہ تجربہ ہونے لگا
سرفراز دانش