EN हिंदी
صہبا اختر شیاری | شیح شیری

صہبا اختر شیر

11 شیر

اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ

صہبا اختر




بیان لغزش آدم نہ کر کہ وہ فتنہ
مری زمیں سے نہیں تیرے آسماں سے اٹھا

صہبا اختر




دل کے اجڑے نگر کو کر آباد
اس ڈگر کو بھی کوئی راہی دے

صہبا اختر




ہمیں خبر ہے زن فاحشہ ہے یہ دنیا
سو ہم بھی ساتھ اسے بے نکاح رکھتے ہیں

صہبا اختر




میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور
لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا

صہبا اختر




میرے سخن کی داد بھی اس کو ہی دیجئے
وہ جس کی آرزو مجھے شاعر بنا گئی

صہبا اختر




مری تنہائیوں کو کون سمجھے
میں سایہ ہوں مگر خود سے جدا ہوں

صہبا اختر




صہباؔ صاحب دریا ہو تو دریا جیسی بات کرو
تیز ہوا سے لہر تو اک جوہڑ میں بھی آ جاتی ہے

صہبا اختر




شاید وہ سنگ دل ہو کبھی مائل کرم
صورت نہ دے یقین کی اس احتمال کو

صہبا اختر