گونج مرے گمبھیر خیالوں کی مجھ سے ٹکراتی ہے
آنکھیں بند کروں یا کھولوں بجلی کوندے جاتی ہے
تنہائی کے دشت سے گزرو تو ممکن ہے تم بھی سنو
سناٹے کی چیخ جو میرے کانوں کو پتھراتی ہے
کل اک نیم شگفتہ جسم کے قرب سے مجھ پر ٹوٹ پڑی
آدھی رات کو ادھ کھلی کلیوں سے جو خوش بو آتی ہے
سونے گھروں میں رہنے والے کندنی چہرے کہتے ہیں
ساری ساری رات اکیلے پن کی آگ جلاتی ہے
صہباؔ صاحب دریا ہو تو دریا جیسی بات کرو
تیز ہوا سے لہر تو اک جوہڑ میں بھی آ جاتی ہے
غزل
گونج مرے گمبھیر خیالوں کی مجھ سے ٹکراتی ہے
صہبا اختر