دہراؤں کیا فسانۂ خواب و خیال کو
گزرے کئی فراق کسی کے وصال کو
رشتہ بجز گمان نہ تھا زندگی سے کچھ
میں نے فقط قیاس کیا ماہ و سال کو
شاید وہ سنگ دل ہو کبھی مائل کرم
صورت نہ دے یقین کی اس احتمال کو
ترغیب کا ہے وسعت امکاں پہ انحصار
رم خوردگی سکھاتا ہے صحرا غزال کو
صہباؔ سدا بہار ہے یہ گلستان فن
ممکن نہیں زوال سخن کے کمال کو
غزل
دہراؤں کیا فسانۂ خواب و خیال کو
صہبا اختر