جسے لکھ لکھ کے خود بھی رو پڑا ہوں
میں اپنی روح کا وہ مرثیہ ہوں
مری تنہائیوں کو کون سمجھے
میں سایہ ہوں مگر خود سے جدا ہوں
سمجھتا ہوں نوا کی شعلگی کو
سکوت حرف سے لمس آشنا ہوں
کسی سے کیا ملوں اپنا سمجھ کر
میں اپنے واسطے بھی نارسا ہوں
کوئی سورج ہے فن کا تو مجھے کیا
میں اپنی روشنی میں سوچتا ہوں
مرا صحرا ہے میری خود شناسی
میں اپنی خامشی میں گونجتا ہوں
مجھے یہ جستجو رکھتی ہے حیراں
کہ میں صہبا ہوں یا صہبا نما ہوں
غزل
جسے لکھ لکھ کے خود بھی رو پڑا ہوں
صہبا اختر