کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تحریر کا
حال کس پتھر پہ لکھا ہے مری تقدیر کا
چاند اس کا آسماں اس کا سر شام وصال
جس پہ سایہ ہو تری زلف ستارہ گیر کا
کی نہ چشم شوق نے جنبش ہجوم رنگ میں
مجھ پہ طاری ہو گیا عالم تری تصویر کا
میں اسے سمجھوں نہ سمجھوں دل کو ہوتا ہے ضرور
لالہ و گل پر گماں اک اجنبی تحریر کا
چین سے دونوں نہیں اس عالم احساس میں
میں تری چپ کا ہوں زخمی تو مری تقریر کا
غزل
کل جہاں اک آئینہ ہے حسن کی تحریر کا
صہبا اختر