ابر کا سایہ و سبزہ راہ کا
جان من رتھ کی سواری یاد ہے
صدرالدین محمد فائز
جو کہیے اس کے حق میں کم ہے بے شک
پری ہے حور ہے روح الامیں ہے
صدرالدین محمد فائز
کرے رشک گلستاں دل کو فائزؔ
مرا ساجن بہار انجمن ہے
صدرالدین محمد فائز
میں نے کہا کہ گھر چلے گی میرے ساتھ آج
کہنے لگی کہ ہم سوں نہ کر بات تو بری
صدرالدین محمد فائز
پانی ہووے آرسی اس مکھ کو دیکھ
زہرہ اسے کیا کہ اقامت کرے
صدرالدین محمد فائز
رات دن تو رہے رقیباں سنگ
دیکھنا تیرا مجھ محال ہوا
صدرالدین محمد فائز
تجھ کو ہے ہم سے جدائی آرزو
میرے دل میں شوق ہے دیدار کا
صدرالدین محمد فائز
عشاق جاں بکف کھڑے ہیں تیرے آس پاس
اے دل ربائے غارت جاں اپنے فن میں آ
صدرالدین محمد فائز
وہی قدر فائزؔ کی جانے بہت
جسے عشق کا زخم کاری لگے
صدرالدین محمد فائز