EN हिंदी
ریاض لطیف شیاری | شیح شیری

ریاض لطیف شیر

7 شیر

بعد میں رکھے سرابوں کے دیاروں میں قدم
پہلے وہ سانس کی سرحد پہ تو آ کر دیکھے

ریاض لطیف




بس لہو کی بوند تھی احساس میں
پھر اگایا دشت نے اک سر نیا

ریاض لطیف




کبھی تو منظروں کے اس طلسم سے ابھر سکوں
کھڑا ہوں دل کی سطح پر خود اپنے انتظار میں

ریاض لطیف




خدا کی خموشی میں شاید ہو اس کا وجود
زمانہ ہوا نام اپنا پکارے ہوئے

ریاض لطیف




کسی نے ہم کو عطا نہیں کی ہماری گردش ہے اپنی گردش
خود اپنی مرضی سے اس جہاں کی رگوں میں گرداب ہم ہوئے ہیں

ریاض لطیف




یہیں پر ختم ہونی چاہیئے تھی ایک دنیا
یہیں سے بات کا آغاز ہونا چاہیئے تھا

ریاض لطیف




زمین پھیل گئی ہے ہماری روح تلک
جہاں کا شور اب اندر سنائی دیتا ہے

ریاض لطیف