تمام خلیوں میں اکثر سنائی دیتا ہے
ہر اک جہان میں محشر سنائی دیتا ہے
جو چھو کے دیکھوں تو گردش کی تہہ میں گردش ہے
دھروں جو کان تو محور سنائی دیتا ہے
ہزار میلوں بچھی ارتقا کی مٹی پر
بدن میں اب بھی سمندر سنائی دیتا ہے
لچکتی رات میں سیارگاں کی چاپ سنو
جو مجھ میں جذب ہے باہر سنائی دیتا ہے
زمین پھیل گئی ہے ہماری روح تلک
جہاں کا شور اب اندر سنائی دیتا ہے
زباں کے غار سے پہنچے سکوت تک تو اب
عجیب لہجوں میں منظر سنائی دیتا ہے
تمدنوں کے ہر آہنگ کا تضاد ریاضؔ
جو دور جاؤں تو بہتر سنائی دیتا ہے
غزل
تمام خلیوں میں اکثر سنائی دیتا ہے
ریاض لطیف