EN हिंदी
گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں | شیح شیری
guzar chuke hain badan se aage najat ka KHwab hum hue hain

غزل

گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں

ریاض لطیف

;

گزر چکے ہیں بدن سے آگے نجات کا خواب ہم ہوئے ہیں
محیط سانسوں کے پار جا کر بہت ہی نایاب ہم ہوئے ہیں

کسی نے ہم کو عطا نہیں کی ہماری گردش ہے اپنی گردش
خود اپنی مرضی سے اس جہاں کی رگوں میں گرداب ہم ہوئے ہیں

عجیب کھوئے ہوئے جہانوں کی گونج ہے اپنے گنبدوں میں
نہ جانے کس کی سماعتوں کے مزار کا باب ہم ہوئے ہیں

جو ہم میں مسمار ہو چکا ہے اسی سے تعمیر ہے ہماری
عدم کے پتھر تراش کر ہی ابد کی محراب ہم ہوئے ہیں

تمام سطحیں الٹ رہی ہیں حیات کی موت کی خدا کی
جو تیرے دل سے ابھر کے آتے ہیں ایسے سیلاب ہم ہوئے ہیں

ریاضؔ ڈر ہے کہیں نہ آنکھوں کی کشتیوں میں چھپے سمندر
جمود ٹوٹا ہے ساری موجوں کا ایسے بے تاب ہم ہوئے ہیں