حدوں کے نہ ہونے کی ذلت سے ہارے ہوئے
ابد کے مجسم کنارے ہمارے ہوئے
نفس کے دیاروں میں گھولا تھا اک لمس ہی
نکل آئے سارے فلک سے اتارے ہوئے
اب اپنی نفی میں ذرا غوطہ زن ہو ہی لیں
کہ صدیاں ہوئیں خود کو خود سے ابھارے ہوئے
پرائی سیاہی کی آغوش میں کیا ملے
جو خود دل کی زد پر جلے وہ ستارے ہوئے
خدا کی خموشی میں شاید ہو اس کا وجود
زمانہ ہوا نام اپنا پکارے ہوئے
ادھورے جہانوں کے تیور ادھورے ریاضؔ
یہ سب میری تکمیل کے استعارے ہوئے
غزل
حدوں کے نہ ہونے کی ذلت سے ہارے ہوئے
ریاض لطیف