کسی بے گھر جہاں کا راز ہونا چاہیئے تھا
ہمیں اس دشت میں پرواز ہونا چاہیئے تھا
ہمارے خون میں بھی کوئی بچھڑی لہر آئی
ہوا کے ہاتھ میں اک ساز ہونا چاہیئے تھا
ہمارے لا مکاں چہرے میں آئینوں کے جنگل
ہمیں ان میں ترا انداز ہونا چاہیئے تھا
یہیں پر ختم ہونی چاہیئے تھی ایک دنیا
یہیں سے بات کا آغاز ہونا چاہیئے تھا
ریاضؔ اب تم کو کھلنا چاہیئے تھا اس ورق پر
کسی بے گھر جہاں کا راز ہونا چاہیئے تھا
غزل
کسی بے گھر جہاں کا راز ہونا چاہیئے تھا
ریاض لطیف