EN हिंदी
نصیر احمد ناصر شیاری | شیح شیری

نصیر احمد ناصر شیر

8 شیر

ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درس گاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی

نصیر احمد ناصر




ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




جب پکارا کسی مسافر نے
راستے کھائیوں میں چیخ اٹھے

نصیر احمد ناصر




خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر




لوگ پھرتے ہیں بھرے شہر کی تنہائی میں
سرد جسموں کی صلیبوں پہ اٹھا کر چہرے

نصیر احمد ناصر




محبت کے ٹھکانے ڈھونڈھتی ہے
بدن کی لا مکانی موسموں میں

نصیر احمد ناصر




رات بھر خواب دیکھنے والے
دن کی سچائیوں میں چیخ اٹھے

نصیر احمد ناصر