EN हिंदी
مصطفی زیدی شیاری | شیح شیری

مصطفی زیدی شیر

15 شیر

آنکھ جھک جاتی ہے جب بند قبا کھلتے ہیں
تجھ میں اٹھتے ہوئے خورشید کی عریانی ہے

مصطفی زیدی




دل کے رشتے عجیب رشتے ہیں
سانس لینے سے ٹوٹ جاتے ہیں

مصطفی زیدی




غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن

مصطفی زیدی




اک موج خون خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اک طوق فرد جرم تھا کس کے گلے میں تھا

مصطفی زیدی




انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مصطفی زیدی




اس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں
اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے

مصطفی زیدی




عشق ان ظالموں کی دنیا میں
کتنی مظلوم ذات ہے اے دل

مصطفی زیدی




جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا

مصطفی زیدی




خود اپنے شب و روز گزر جائیں گے لیکن
شامل ہے مرے غم میں تری در بدری بھی

مصطفی زیدی