کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا
قلزم نے بڑھ کے چوم لیے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا
اک موج خون خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اک طوق فرد جرم تھا کس کے گلے میں تھا
اک رشتۂ وفا تھا سو کس نا شناس سے
اک درد حرز جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھئے جو مزا ٹوٹنے میں تھا
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں مے کدے میں تھا
غزل
کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا
مصطفی زیدی