اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے
تو بھی منجملۂ اسباب پریشانی ہے
مجھ کو اس شہر سے کچھ دور ٹھہر جانے دو
میرے ہمراہ مری بے سر و سامانی ہے
آنکھ جھک جاتی ہے جب بند قبا کھلتے ہیں
تجھ میں اٹھتے ہوئے خورشید کی عریانی ہے
اک ترا لمحۂ اقرار نہیں مر سکتہ
اور ہر لمحہ زمانے کی طرح فانی ہے
کوچۂ دوست سے آگے ہے بہت دشت جنوں
عشق والوں نے ابھی خاک کہاں چھانی ہے
اس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں
اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے
غزل
اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے
مصطفی زیدی