EN हिंदी
مصطفی زیدی شیاری | شیح شیری

مصطفی زیدی شیر

15 شیر

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

مصطفی زیدی




مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زیدی




ناوک ظلم اٹھا دشنۂ اندوہ سنبھال
لطف کے خنجر بے نام سے مت مار مجھے

مصطفی زیدی




روح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی
آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار

مصطفی زیدی




تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے
سعیٔ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں

مصطفی زیدی




اترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق
بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی

مصطفی زیدی