اب کسی درد کا شکوہ نہ کسی غم کا گلا
میری ہستی نے بڑی دیر میں پایا ہے مجھے
مغیث الدین فریدی
ہے فریدیؔ عجب رنگ بزم جہاں مٹ رہا ہے یہاں فرق سود و زیاں
نور کی بھیک تاروں سے لینے لگا آفتاب اپنی اک اک کرن بیچ کر
مغیث الدین فریدی
ہم نے مانگا تھا سہارا تو ملی اس کی سزا
گھٹتے بڑھتے رہے ہم سایۂ دیوار کے ساتھ
مغیث الدین فریدی
اس دور میں انسان کا چہرہ نہیں ملتا
کب سے میں نقابوں کی تہیں کھول رہا ہوں
مغیث الدین فریدی
صرف الفاظ پہ موقوف نہیں لطف سخن
آنکھ خاموش اگر ہے تو زباں کچھ بھی نہیں
مغیث الدین فریدی
تری اداؤں کی سادگی میں کسی کو محسوس بھی نہ ہوگا
ابھی قیامت کا اک کرشمہ حیا کے دامن میں پل رہا ہے
مغیث الدین فریدی