تو اپنے پندار کی خبر لے کہ رخ ہوا کا بدل رہا ہے
تری نظر سے بہکنے والا فریب کھا کر سنبھل رہا ہے
یہی ہے دستور شہر ہستی کہ جو نیا ہے وہی پرانا
حیات انگڑائی لے رہی ہے زمانہ کروٹ بدل رہا ہے
رہ طلب میں جنوں نے اکثر شعور کو آئینہ دکھایا
جسے تھا عذر شکستہ پائی وہ اب ستاروں پہ چل رہا ہے
ہمیں یہ طعنے نہ دو کہ ہم نے زمانہ سازی کے گر نہ سیکھے
کہ رفتہ رفتہ مزاج دنیا ہمارے سانچے میں ڈھل رہا ہے
تری اداؤں کی سادگی میں کسی کو محسوس بھی نہ ہوگا
ابھی قیامت کا اک کرشمہ حیا کے دامن میں پل رہا ہے
کسی میں ہمت نہ تھی کہ بڑھ کر جنوں کی زنجیر تھام لیتا
خرد کی بستی میں ہے اندھیرا چراغ صحرا میں جل رہا ہے
ہزار شیوے تھے گفتگو کے ہزار انداز تھے سخن کے
مگر بہ ایمائے دل فریدیؔ فدائے رنگ غزل رہا ہے
غزل
تو اپنے پندار کی خبر لے کہ رخ ہوا کا بدل رہا ہے
مغیث الدین فریدی