ایسا نہ ہو کہ تازہ ہوا اجنبی لگے
کمرے کا ایک آدھ دریچہ کھلا بھی رکھ
مرغوب علی
بھیگی مٹی کی مہک پیاس بڑھا دیتی ہے
درد برسات کی بوندوں میں بسا کرتا ہے
مرغوب علی
بچھڑ کے تجھ سے عجب حال ہو گیا میرا
تمام شہر پرایا دکھائی دیتا ہے
مرغوب علی
ہمیں تو یاد بہت آیا موسم گل میں
وہ سرخ پھول سا چہرہ کھلا ہوا اب کے
مرغوب علی
حقیقی چہرہ کہیں پر ہمیں نہیں ملتا
سبھی نے چہرہ پہ ڈالے ہیں مصلحت کے نقاب
مرغوب علی
کرسی میز کتابیں؟ بستر انجانے سے تکتے ہیں
دیر سے اپنے گھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
مرغوب علی
میں اس کو بھول جاؤں رات یہ مانگی دعا میں نے
کروں کیا میں اگر میری دعا واپس پلٹ آئے
مرغوب علی
مجھ کو برباد خود ہی ہونا تھا
تم پہ الزام بے سبب آئے
مرغوب علی
رات پڑتے ہی ہر اک روز ابھر آتی ہے
کس کے رونے کی صدا ذات کے سناٹے میں
مرغوب علی