EN हिंदी
جو جاں سے ہے عزیز اسے تو جدا بھی رکھ | شیح شیری
jo jaan se hai aziz use tu juda bhi rakh

غزل

جو جاں سے ہے عزیز اسے تو جدا بھی رکھ

مرغوب علی

;

جو جاں سے ہے عزیز اسے تو جدا بھی رکھ
خوشیوں کے منہ میں درد بھرا ذائقہ بھی رکھ

ہر راستہ کہیں نہ کہیں مڑ ہی جائے گا
رشتوں کے بیچ تھوڑا بہت فاصلہ بھی رکھ

یوں بھی نہ ہو کہ جو بھی اٹھے تجھ میں جھانک لے
خود میں نہ یوں سمٹ کوئی درد آشنا بھی رکھ

ایسا نہ ہو کہ تازہ ہوا اجنبی لگے
کمرے کا ایک آدھ دریچہ کھلا بھی رکھ

شاخ اور پھول رشتۂ یک لمحہ کے اسیر
اپنی طلب کے سامنے یہ آئنا بھی رکھ