جو جاں سے ہے عزیز اسے تو جدا بھی رکھ
خوشیوں کے منہ میں درد بھرا ذائقہ بھی رکھ
ہر راستہ کہیں نہ کہیں مڑ ہی جائے گا
رشتوں کے بیچ تھوڑا بہت فاصلہ بھی رکھ
یوں بھی نہ ہو کہ جو بھی اٹھے تجھ میں جھانک لے
خود میں نہ یوں سمٹ کوئی درد آشنا بھی رکھ
ایسا نہ ہو کہ تازہ ہوا اجنبی لگے
کمرے کا ایک آدھ دریچہ کھلا بھی رکھ
شاخ اور پھول رشتۂ یک لمحہ کے اسیر
اپنی طلب کے سامنے یہ آئنا بھی رکھ

غزل
جو جاں سے ہے عزیز اسے تو جدا بھی رکھ
مرغوب علی