آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بے کار جائے گا
خورشید رضوی
آساں تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
خورشید رضوی
اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
دل میں رہتا تھا مگر خون میں جاری تو نہ تھا
خورشید رضوی
عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
کوئی اپنا نظر آیا ہے مجھے
خورشید رضوی
بہت سے روگ دعا مانگنے سے جاتے ہیں
یہ بات خوگر رسم دوا سے کون کہے
خورشید رضوی
بس دریچے سے لگے بیٹھے رہے اہل سفر
سبزہ جلتا رہا اور یاد وطن آتی رہی
خورشید رضوی
بکھر گیا تو مجھے کوئی غم نہیں اس کا
کہ راز مجھ پہ کئی وا ہوئے بکھرتے ہوئے
خورشید رضوی
ہیں مری راہ کا پتھر مری آنکھوں کا حجاب
زخم باہر کے جو اندر نہیں جانے دیتے
خورشید رضوی
ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے
ہم سے جانے کس لیے دنیا نہ ٹھکرائی گئی
خورشید رضوی