عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
کوئی اپنا نظر آیا ہے مجھے
پیش آئینہ بہت سوچتا ہوں
کس لیے اس نے بنایا ہے مجھے
کس لیے وسعت صحرا دے کر
تنگ گلیوں میں پھرایا ہے مجھے
کس لیے میرے ہی صحن جاں میں
مثل دیوار اٹھایا ہے مجھے
میں کہیں اور کا رہنے والا
غم کہاں کھینچ کے لایا ہے مجھے
جس میں اس چھاؤں کی یاد آ جائے
اب تو وہ دھوپ بھی سایا ہے مجھے
نگۂ ناز سے کیوں کر پوچھوں
کیوں نگاہوں سے گرایا ہے مجھے
ہاتھ میں لے کے گریباں میرا
دل نے دل بھر کے ستایا ہے مجھے
سخت حیراں ہوں سر کوہ ندا
کون تھا کس نے بلایا ہے مجھے
غزل
عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
خورشید رضوی