اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
دل میں رہتا تھا مگر خون میں جاری تو نہ تھا
نبض چلتی ہے تو قدموں کی صدا آتی ہے
اس قدر زخم جدائی کبھی کاری تو نہ تھا
وہ تو بادل کا برسنا ہے عناصر کا اصول
ورنہ اشکوں کا نمک آنکھ پہ بھاری تو نہ تھا
دل میں کھلتے ہیں تری یاد کے اعجاز سے پھول
اس میں کچھ شائبۂ باد بہاری تو نہ تھا
یہ بھی اندر کا کوئی روگ ہے ورنہ ہم کو
عمر بھر حوصلۂ نالہ و زاری تو نہ تھا
غزل
اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
خورشید رضوی