کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا
سوچی ہوئی باتوں کو سوچا تو بہت رویا
دل میرا ہر اک شے کو آئینہ سمجھتا ہے
ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا تو بہت رویا
جو شخص نہ رویا تھا تپتی ہوئی راہوں میں
دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
آساں تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا
جس موج سے ابھرا تھا اس موج پہ کیا گزری
صحرا میں وہ بادل کا ٹکڑا تو بہت رویا
ہم تیری طبیعت کو خورشیدؔ نہیں سمجھے
پتھر نظر آتا تھا رویا تو بہت رویا
غزل
کل میں انہی رستوں سے گزرا تو بہت رویا
خورشید رضوی