خشک پتلی سے کوئی صورت نہ ٹھہرائی گئی
آنکھ سے آنسو گئے میری کہ بینائی گئی
صبح دم کیا ڈھونڈتے ہو شب رووں کے نقش پا
جب سے اب تک بارہا موج صبا آئی گئی
رو رہا ہوں ہر پرانی چیز کو پہچان کر
جانے کس کی روح میرے روپ میں لائی گئی
مطمئن ہو دیکھ کر تم رنگ تصویر حیات
پھر وہ شاید وہ نہیں جو مجھ کو دکھلائی گئی
چلتے چلتے کان میں کس کی صدا آنے لگی
یوں لگا جیسے مری برسوں کی تنہائی گئی
ہم کہ اپنی راہ کا پتھر سمجھتے ہیں اسے
ہم سے جانے کس لیے دنیا نہ ٹھکرائی گئی
غزل
خشک پتلی سے کوئی صورت نہ ٹھہرائی گئی
خورشید رضوی