EN हिंदी
خاور احمد شیاری | شیح شیری

خاور احمد شیر

6 شیر

ایسے کھلا وہ پھول سا چہرہ پھیلی سارے گھر خوشبو
خط کو چھپا کر پڑھنے والی راز چھپانا بھول گئی

خاور احمد




ہجوم سنگ میں کیا ہو سخن طراز کوئی
وہ ہم سخن تھا تو کیا کیا نہ خوش کلام تھے ہم

خاور احمد




مرے لہو سے جس کے برگ و بار میں بہار ہے
وہی شجر مرے لیے صلیب کیسے ہو گیا

خاور احمد




تو چلا گیا ہے تو شہر پھر وہی دشت غم ہے مرے لیے
وہی میں ہوں اور مری زندگی مرے آنسوؤں میں بھری ہوئی

خاور احمد




اس کے انداز سے جھلکتا تھا کوئی کردار داستانوں کا
اس کی آواز سے بکھرتی تھی کوئی خوشبو کسی کہانی کی

خاور احمد




اس کے بعد تو جو کرنا تھا آپ جناب نے کرنا تھا
اس کی تو معراج یہی تھی آپ جناب تک آیا وہ

خاور احمد