نہ تیز رو تھے نہ جوئندۂ مقام تھے ہم
وہ ہم سفر تھا تو کیسے صبا خرام تھے ہم
ہجوم سنگ میں کیا ہو سخن طراز کوئی
وہ ہم سخن تھا تو کیا کیا نہ خوش کلام تھے ہم
بہت قریب سے دیکھے جو اس کے لب تو کھلا
کہ ایک عمر سے کیوں اتنے تشنہ کام تھے ہم
وہ سارا دور تھا رسوائیوں سے پہلے کا
کہ شہر یار تھے یاروں میں نیک نام تھے ہم
یہ مہربانی بھی ہم پہ رہی محبت کی
کہ خاص رہتے ہوئے بھی بہت ہی عام تھے ہم
وصال کا کوئی امکان ہی نہ تھا خاورؔ
وہ زر نگار سحر تھا غبار شام تھے ہم

غزل
نہ تیز رو تھے نہ جوئندۂ مقام تھے ہم
خاور احمد