EN हिंदी
پھول پہ آ کے بیٹھی تو خود پر اترنا بھول گئی | شیح شیری
phul pe aa ke baiThi to KHud par utarna bhul gai

غزل

پھول پہ آ کے بیٹھی تو خود پر اترنا بھول گئی

خاور احمد

;

پھول پہ آ کے بیٹھی تو خود پر اترنا بھول گئی
ایسی مست ہوئی وہ تتلی پر پھیلانا بھول گئی

ایسے کھلا وہ پھول سا چہرہ پھیلی سارے گھر خوشبو
خط کو چھپا کر پڑھنے والی راز چھپانا بھول گئی

کلیوں نے ہر بھونرے، تتلی سے پوچھا ہے اس کا نام
باد صبا جس پھول کے گھر سے لوٹ کے آنا بھول گئی

اپنے پرانے خط لینے وہ آئی تھی مرے کمرے میں
میز پہ دو تصویریں دیکھیں خط لے جانا بھول گئی

برسوں بعد ملے تو ایسی پیاس بھری تھی آنکھوں میں
بھول گیا میں بات بنانا وہ شرمانا بھول گئی

ساجن کی یادیں بھی خاورؔ کن لمحوں آ جاتی ہیں
گوری آٹا گوندھ رہی تھی نمک ملانا بھول گئی