سفیر شام صبح کا نقیب کیسے ہو گیا
جو شب کو شب نہ لکھ سکا ادیب کیسے ہو گیا
ابھی تو خواب دیکھنے کی عمر تھی مری مگر
ابھی سے جاگنا مرا نصیب کیسے ہو گیا
اسی کی آب و خاک سے مری نمود ہے تو پھر
مرا وطن مرے لیے عجیب کیسے ہو گیا
مرے لہو سے جس کے برگ و بار میں بہار ہے
وہی شجر مرے لیے صلیب کیسے ہو گیا
مری زمیں تو سیم و زر سے قیمتی زمین ہے
مگر یہ میرا ملک یوں غریب کیسے ہو گیا

غزل
سفیر شام صبح کا نقیب کیسے ہو گیا
خاور احمد