EN हिंदी
کہیں جلتی اپنی ہی آنچ سے کہیں خوشبوؤں میں بھری ہوئی | شیح شیری
kahin jalti apni hi aanch se kahin KHushbuon mein bhari hui

غزل

کہیں جلتی اپنی ہی آنچ سے کہیں خوشبوؤں میں بھری ہوئی

خاور احمد

;

کہیں جلتی اپنی ہی آنچ سے کہیں خوشبوؤں میں بھری ہوئی
کوئی شاخ گل تھی کہ آگ تھی مرے بازوؤں میں بھری ہوئی

وہ طلسمی رات ابھی تلک مرے جسم و جاں پہ محیط ہے
وہ جو رات اتری تھی عرش سے ترے جادوؤں میں بھری ہوئی

ترے چشم و لب کی شباہتیں مجھے روز و شب ملیں باغ میں
کہیں تتلیوں پہ لکھی ہوئی کہیں جگنوؤں میں بھری ہوئی

مجھے سیر گل کی کسی روش پہ ملی نہیں ہے مثال بھی
کوئی بے مثال سی مشک تھی ترے گیسوؤں میں بھری ہوئی

تو چلا گیا ہے تو شہر پھر وہی دشت غم ہے مرے لیے
وہی میں ہوں اور مری زندگی مرے آنسوؤں میں بھری ہوئی