چار جانب چیختی سمتوں کا شور
ہانپتے سائے تھکن اور انحطاط
عشرت ظفر
چشمۂ آب رواں ہے جو سراب جاں میں
اس کی ہر لہر میں رقصاں ہے ترنم تیرا
عشرت ظفر
جدھر بھی جاتا ہے وہ شعلۂ بہار سرشت
دعائیں دیتا ہے انبوہ کشتگاں اس کو
عشرت ظفر
مرے عقب میں ہے آوازۂ نمو کی گونج
ہے دشت جاں کا سفر کامیاب اپنی جگہ
عشرت ظفر
مرے کمرے کی دیواروں میں ایسے آئنے بھی ہیں
کہ جن کے پاس ہر شخص اپنا چہرا چھوڑ جاتا ہے
عشرت ظفر
سب مرے دل پہ کرم اس نگۂ ناز کا ہے
بے قراری ہے مری اور نہ سکوں ہے میرا
عشرت ظفر
وہ اک لمحہ جو تیرے قرب کی خوشبو سے ہے روشن
اب اس لمحے کو پابند سلاسل چاہتا ہوں میں
عشرت ظفر
وہ میرے راز مجھ میں چاہتا ہے منکشف کرنا
مجھے میرے گھنے سائے میں تنہا چھوڑ جاتا ہے
عشرت ظفر