EN हिंदी
ہر رگ خار کی تحویل میں خوں ہے میرا | شیح شیری
har rag-e-Khaar ki tahwil mein KHun hai mera

غزل

ہر رگ خار کی تحویل میں خوں ہے میرا

عشرت ظفر

;

ہر رگ خار کی تحویل میں خوں ہے میرا
بے کراں دشت دبستان جنوں ہے میرا

نقش موہوم ہے سب وسعت ارض و افلاک
میرے شہپر کے تلے صید زبوں ہے میرا

شاخیں تلوار کی صورت ہیں گل و برگ ہیں سنگ
دل کا یہ نخل گرفتار فسوں ہے میرا

زخم کیا ہے کسی شمشیر نگہ کا اعجاز
اشک کیا ہے ثمر فصل دروں ہے میرا

ہجر کا چاند دہکتا ہوا انگارہ سہی
مگر اس سے بھی کہیں شعلہ فزوں ہے میرا

سب مرے دل پہ کرم اس نگۂ ناز کا ہے
بے قراری ہے مری اور نہ سکوں ہے میرا

غم کا زہراب رگ و پے میں جو اترا عشرتؔ
تب یہ معلوم ہوا مجھ کو وہ کیوں ہے میرا