EN हिंदी
بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو | شیح شیری
bahut hai ab meri aankhon ka aasman usko

غزل

بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو

عشرت ظفر

;

بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو
گیا وہ دور کہ تھی فکر آشیاں اس کو

کیا ہے سلطنت دل پہ حکمراں اس کو
نوازشوں کا سلیقہ مگر کہاں اس کو

شگاف زخم جو میرا نہ کھل گیا ہوتا
تو کیسے ملتی یہ شمشیر کہکشاں اس کو

جدھر بھی جاتا ہے وہ شعلۂ بہار سرشت
دعائیں دیتا ہے انبوہ کشتگاں اس کو

خود اس کی اپنی چمک نے سراغ اس کا دیا
چھپایا میں نے بہت زیر آب جاں اس کو

سمندر اپنا سا منہ لے کے رہ گئے عشرتؔ
کیا تراوش شبنم نے بے کراں اس کو