بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو
گیا وہ دور کہ تھی فکر آشیاں اس کو
کیا ہے سلطنت دل پہ حکمراں اس کو
نوازشوں کا سلیقہ مگر کہاں اس کو
شگاف زخم جو میرا نہ کھل گیا ہوتا
تو کیسے ملتی یہ شمشیر کہکشاں اس کو
جدھر بھی جاتا ہے وہ شعلۂ بہار سرشت
دعائیں دیتا ہے انبوہ کشتگاں اس کو
خود اس کی اپنی چمک نے سراغ اس کا دیا
چھپایا میں نے بہت زیر آب جاں اس کو
سمندر اپنا سا منہ لے کے رہ گئے عشرتؔ
کیا تراوش شبنم نے بے کراں اس کو
غزل
بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو
عشرت ظفر