زمیں غبار سمندر سحاب اپنی جگہ
مگر میں اور مرا اضطراب اپنی جگہ
ہوا کی زد میں ہے ہر چیز خار و خس کی طرح
کہو پڑے رہیں چپ چاپ خواب اپنی جگہ
اگرچہ بکھری ہے راکھ اس کی میرے چاروں طرف
وہ لمحہ اب بھی ہے اپنا جواب اپنی جگہ
مرے عقب میں ہے آوازۂ نمو کی گونج
ہے دشت جاں کا سفر کامیاب اپنی جگہ
زباں کو دیتا ہے احساس تشنگی سے نجات
وہ ذائقہ ہے سکوت سراب اپنی جگہ
نہ جانے ہوگا کہاں خیمۂ بدن عشرتؔ
کہ چھوڑنے کو ہے ہر اک طناب اپنی جگہ
غزل
زمیں غبار سمندر سحاب اپنی جگہ
عشرت ظفر