یہ کس نے کہہ دیا تجھ سے کہ ساحل چاہتا ہوں میں
سمندر ہوں سمندر کو مقابل چاہتا ہوں میں
وہ اک لمحہ جو تیرے قرب کی خوشبو سے ہے روشن
اب اس لمحے کو پابند سلاسل چاہتا ہوں میں
وہ چنگاری جو ہے مشاق فن شعلہ سازی میں
اسے روشن تہہ خاکستر دل چاہتا ہوں میں
بہت بے زار ہے عمر رواں صحرا نوردی سے
پئے کار جنوں تازہ مشاغل چاہتا ہوں میں
نہ یہ خواہش کہ وہ مٹی میں میری جذب ہو جائے
نہ خود کو داستاں میں اس کی شامل چاہتا ہوں میں
عجب بسمل ہے عشرتؔ اپنے قاتل سے یہ کہتا ہے
سر محفل تجھے اے جان محفل چاہتا ہوں میں
غزل
یہ کس نے کہہ دیا تجھ سے کہ ساحل چاہتا ہوں میں
عشرت ظفر