EN हिंदी
عرفان احمد شیاری | شیح شیری

عرفان احمد شیر

6 شیر

اکیلے پار اتر کے بہت ہے رنج مجھے
میں اس کا بوجھ اٹھا کر بھی تیر سکتا تھا

عرفان احمد




غم حیات نے بخشے ہیں سارے سناٹے
کبھی ہمارے بھی پہلو میں دل دھڑکتا تھا

عرفان احمد




جانے کس شہر میں آباد ہے تو
ہم ہیں برباد یہاں تیرے بعد

عرفان احمد




نشہ تھا زندگی کا شرابوں سے تیز تر
ہم گر پڑے تو موت اٹھا لے گئی ہمیں

عرفان احمد




ترک تعلقات کی بس انتہا نہ پوچھ
اب کے تو میں نے ترک کیا اپنے آپ کو

عرفان احمد




زخم جو تو نے دیے تجھ کو دکھا تو دوں مگر
پاس تیرے بھی نصیحت کے سوا ہے اور کیا

عرفان احمد