تھوڑی سی دور تیری صدا لے گئی ہمیں
پھر اک ہوائے تند اڑا لے گئی ہمیں
ندی کنارے کیا گئے پانی کی چاہ میں
ندی سمندروں میں بہا لے گئی ہمیں
قسمت میں تشنگی سے ہی مرنا لکھا تھا پھر
کیوں ساحلوں پہ گرم ہوا لے گئی ہمیں
نشہ تھا زندگی کا شرابوں سے تیز تر
ہم گر پڑے تو موت اٹھا لے گئی ہمیں
ہم سادہ دل تھے آ گئے آخر فریب میں
باتوں میں اس کی آنکھ لگا لے گئی ہمیں
غزل
تھوڑی سی دور تیری صدا لے گئی ہمیں
عرفان احمد